تجارت کرنا فرض ہے کہ نہیں قرآن سے ثابت یا حدیث سے ثابت
جواب #54
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب: حامداومصلیاومسلما: - قرآن کریم میں کئی جگہ تجارت کرنے کا ذکر آیا ہے، قال اللہ تبارک وتعالی: وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ) [المزمل:20].
وقال تعالى: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ [البقرة:198].
وقال تعالى: فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [الجمعة:10].
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی کئی جگہوں پر معاش کی خاطر تجارت اختیار کرنے کا ذکر ملتا ہے، فقد روى البزار والحاكم وصححه عن رفاعة بن رافع رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سُئلَ: أي الكسب أطيب؟ فقال: "عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور"۔
کسی بھی قوم کی باعزت بقا اور ترقی میں معیشت و معاش ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو قوم دوسروں کے در کی دریوزہ گر ہوتی ہے وہ ذلیل و رسوا، بے حیثیت و بے قیمت رہتی ہے بلکہ جلد ہی اس کا تشخص بھی مٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بہ موقع کسب معاش: تجارت، زراعت، صنعت و حرفت اور آخری درجہ میں مزدوری کرنے کی ترغیب دی اور اس کے فضائل بیان فرمائے۔ اسی کے ساتھ بلاضرورت دست سوال دراز کرنے پر شدید وعید فرمائی۔قرآن کریم میں ارشاد ہے -جب جمعہ کی نماز ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل و رزق تلاش کرو-(الجمعہ)
رزق کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعبیر کرکے اس کی تلاش کی اہمیت کو نہایت بلیغ اسلوب میں اجاگر کیا گیا ہے، حتیٰ کہ حج جیسی اہم عبادت کی ادائیگی کے دوران سفر بھی تلاشِ معاش کی پوری پوری اجازت دی گئی، چناں چہ ارشاد ہے:-تمھارے اوپر کچھ حرج نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل و رزق تلاش کرو-(القرآن) تجارت کی ترغیب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ کثرت احادیث میں دی ہے، چناں چہ فرمایا ۔سچا امانت دار تاجر انبیاء ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا- )سنن بیہقی، ۸/۸۲)۔
ایک حدیث میں ہے کہ "تمھارے اوپر تجارت کرنا لازم ہے کہ اس میں رزق کے دس میں سے نو حصے ہیں۔( احیاء العلوم، ۲/۶۴، مطبوعہ: ۱۹۳۹ء مصر)
نیز فرمایا:بازار اللہ تعالیٰ کے دسترخوان ہیں، جو اُن میں آئے وہ اپنا حصہ پائے گا-( صحیح ابن حبان، ۷۴/۱۰، مطبوعہ: بیروت ۱۹۹۳ء)
اسی کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ نے مکی دور میں تجارت پر پوری توجہ دی اور سماج پر بوجھ بننے کے بجائے دوسروں کے بوجھ اٹھانے والے بن گئے، ان میں سے چند صحابۂ کرامؓ بڑے اور مشہور تاجر بنے جیسے حضرت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ،حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ وغیرہ۔
اسی طرح آپؐ نے ہر شخص کو اس کے لیے موزوں اور مناسب روزگار کی طرف متوجہ فرمایا، چناں چہ جو ہنرمند اور صنعت و حرفت سے واقف تھے ، ان کو اسی ذریعہ سے کسب معاش کی ہدایت دی اور اس حوالے سے ایک دستوری ارشاد فرمایا ’’سب سے پاکیزہ رزق جو کوئی شخص کھائے اس کی اپنی کمائی ہے( ابودائود، ۳/۲۰۵)
دست کاری کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا -حضور اکرم ؐ سے عرض کیا گیا کہ انسان کی کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے؟ فرمایا انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر جائز بیع-- بخاری شریف، ۱/۲۰۴
محنت کرکے کمانے اور دست کاری کے ذریعہ حصولِ معاش کی نہ صرف آپ نے ترغیب دی بلکہ اسے صاحب ِ شریعت پیغمبر حضرت دائود علیہ السلام کی سنت قرار دے کر اس کی عظمت کو دوبالا فرما دیا -کبھی کسی انسان نے کوئی چیز نہیں کھائی جو اس کے اپنے ہاتھ کی کمائی کے کھانے سے بہتر ہو اور اللہ کے نبی حضرت دائود علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کی محنت سے کھاتے تھے-(- طبقات ابن سعد، ۳/۱۶۴ اور ۲۲۸)
اس ترغیب کا نتیجہ یہ ہوا کہ دست کار صحابۂ کرامؓ نے اپنی محنت و جاں فشانی سے نہ صرف اپنی گزر اوقات عزت کی بلکہ مکی مسلم سماج کے بعض نادار اور کمزور افراد کی مدد بھی کی۔ چناں چہ حضرت صہیب رومیؓ اور حضرت خباب بن ارتؓ ماہر و مشہور دست کار تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنی دست کاری سے ہجرت کے وقت بڑی مقدار میں دولت چھوڑی تھی۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ترجمۃ عبداللہ بن السائب)
خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تجارت کی اور اس حوالے سے شام کا ایک سے زیادہ مرتبہ سفر کیا- یہی نہیں بلکہ آپ ؐ نے شراکت داری میں بھی تجارت کی، چناں چہ حضرت عبداللہ بن سائب ؐ کا بیان ہے کہ’’ میں زمانۂ جاہلیت میں رسول اللہ کا شریک تجارت تھا، جب میں مسلمان ہوا اور ہجرت کرکے مدینہ منورہ آپؐ کے پاس پہنچا تو آپ ؐ نے فرمایا مجھ کو پہچانتے ہو؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں؟ آپ تومیرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک تھے، نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات پر جھگڑا کرتے تھے۔‘‘ ( مسلم شریف، ۲/۵۳۶، مطبوعہ بیروت)۔
حاصل یہ کہ جھوٹ، دھوکہ اور ناجائز امور سے بچتے ہوئے نیز شرعی حدود میں رہتے ہوئے تجارت کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں آئی ہے۔فقط واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم ۔
وقال تعالى: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ [البقرة:198].
وقال تعالى: فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [الجمعة:10].
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی کئی جگہوں پر معاش کی خاطر تجارت اختیار کرنے کا ذکر ملتا ہے، فقد روى البزار والحاكم وصححه عن رفاعة بن رافع رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سُئلَ: أي الكسب أطيب؟ فقال: "عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور"۔
کسی بھی قوم کی باعزت بقا اور ترقی میں معیشت و معاش ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو قوم دوسروں کے در کی دریوزہ گر ہوتی ہے وہ ذلیل و رسوا، بے حیثیت و بے قیمت رہتی ہے بلکہ جلد ہی اس کا تشخص بھی مٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بہ موقع کسب معاش: تجارت، زراعت، صنعت و حرفت اور آخری درجہ میں مزدوری کرنے کی ترغیب دی اور اس کے فضائل بیان فرمائے۔ اسی کے ساتھ بلاضرورت دست سوال دراز کرنے پر شدید وعید فرمائی۔قرآن کریم میں ارشاد ہے -جب جمعہ کی نماز ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل و رزق تلاش کرو-(الجمعہ)
رزق کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعبیر کرکے اس کی تلاش کی اہمیت کو نہایت بلیغ اسلوب میں اجاگر کیا گیا ہے، حتیٰ کہ حج جیسی اہم عبادت کی ادائیگی کے دوران سفر بھی تلاشِ معاش کی پوری پوری اجازت دی گئی، چناں چہ ارشاد ہے:-تمھارے اوپر کچھ حرج نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل و رزق تلاش کرو-(القرآن) تجارت کی ترغیب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ کثرت احادیث میں دی ہے، چناں چہ فرمایا ۔سچا امانت دار تاجر انبیاء ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا- )سنن بیہقی، ۸/۸۲)۔
ایک حدیث میں ہے کہ "تمھارے اوپر تجارت کرنا لازم ہے کہ اس میں رزق کے دس میں سے نو حصے ہیں۔( احیاء العلوم، ۲/۶۴، مطبوعہ: ۱۹۳۹ء مصر)
نیز فرمایا:بازار اللہ تعالیٰ کے دسترخوان ہیں، جو اُن میں آئے وہ اپنا حصہ پائے گا-( صحیح ابن حبان، ۷۴/۱۰، مطبوعہ: بیروت ۱۹۹۳ء)
اسی کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ نے مکی دور میں تجارت پر پوری توجہ دی اور سماج پر بوجھ بننے کے بجائے دوسروں کے بوجھ اٹھانے والے بن گئے، ان میں سے چند صحابۂ کرامؓ بڑے اور مشہور تاجر بنے جیسے حضرت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ،حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ وغیرہ۔
اسی طرح آپؐ نے ہر شخص کو اس کے لیے موزوں اور مناسب روزگار کی طرف متوجہ فرمایا، چناں چہ جو ہنرمند اور صنعت و حرفت سے واقف تھے ، ان کو اسی ذریعہ سے کسب معاش کی ہدایت دی اور اس حوالے سے ایک دستوری ارشاد فرمایا ’’سب سے پاکیزہ رزق جو کوئی شخص کھائے اس کی اپنی کمائی ہے( ابودائود، ۳/۲۰۵)
دست کاری کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا -حضور اکرم ؐ سے عرض کیا گیا کہ انسان کی کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے؟ فرمایا انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر جائز بیع-- بخاری شریف، ۱/۲۰۴
محنت کرکے کمانے اور دست کاری کے ذریعہ حصولِ معاش کی نہ صرف آپ نے ترغیب دی بلکہ اسے صاحب ِ شریعت پیغمبر حضرت دائود علیہ السلام کی سنت قرار دے کر اس کی عظمت کو دوبالا فرما دیا -کبھی کسی انسان نے کوئی چیز نہیں کھائی جو اس کے اپنے ہاتھ کی کمائی کے کھانے سے بہتر ہو اور اللہ کے نبی حضرت دائود علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کی محنت سے کھاتے تھے-(- طبقات ابن سعد، ۳/۱۶۴ اور ۲۲۸)
اس ترغیب کا نتیجہ یہ ہوا کہ دست کار صحابۂ کرامؓ نے اپنی محنت و جاں فشانی سے نہ صرف اپنی گزر اوقات عزت کی بلکہ مکی مسلم سماج کے بعض نادار اور کمزور افراد کی مدد بھی کی۔ چناں چہ حضرت صہیب رومیؓ اور حضرت خباب بن ارتؓ ماہر و مشہور دست کار تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنی دست کاری سے ہجرت کے وقت بڑی مقدار میں دولت چھوڑی تھی۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ترجمۃ عبداللہ بن السائب)
خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تجارت کی اور اس حوالے سے شام کا ایک سے زیادہ مرتبہ سفر کیا- یہی نہیں بلکہ آپ ؐ نے شراکت داری میں بھی تجارت کی، چناں چہ حضرت عبداللہ بن سائب ؐ کا بیان ہے کہ’’ میں زمانۂ جاہلیت میں رسول اللہ کا شریک تجارت تھا، جب میں مسلمان ہوا اور ہجرت کرکے مدینہ منورہ آپؐ کے پاس پہنچا تو آپ ؐ نے فرمایا مجھ کو پہچانتے ہو؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں؟ آپ تومیرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک تھے، نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات پر جھگڑا کرتے تھے۔‘‘ ( مسلم شریف، ۲/۵۳۶، مطبوعہ بیروت)۔
حاصل یہ کہ جھوٹ، دھوکہ اور ناجائز امور سے بچتے ہوئے نیز شرعی حدود میں رہتے ہوئے تجارت کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں آئی ہے۔فقط واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم ۔
No comments:
Post a Comment