1)ترک رفع الیدین حوالہ صحاح ستہ سے حدیث نمبر کے ساتھ
2)نماز میں ہاتھ باندھنے کا حوالہ صحاح ستہ سے حدیث نمبر کے ساتھ
2)نماز میں ہاتھ باندھنے کا حوالہ صحاح ستہ سے حدیث نمبر کے ساتھ
جواب #52
بسم الله الرحمن الرحيم
رفع یدین کا اختلاف فرض واجب کا اختلاف نہیں ہے، بلکہ استحباب اور عدم استحباب کا ہے، دونوں قسم کی احادیث موجود ہیں، ترک رفع یدین کے سلسلے میں بہت سی احادیث مروی ہیں، چنانچہ مسلم شریف میں ہے: عن جابر بن سمرة قال خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال مالي أراکم رافعي أیدیکم کأنہا أذناب خیل شمس أسکنوا في الصلاة إلخ (۱/۱۸۱) ابوداوٴد (۱/۱۴۳) اسی طرح ارشاد خداوندی ﴿قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ﴾ سے بھی تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین کا خلافِ اولیٰ ہونا ظاہر ہے، ترمذی شریف میں ہے: ”عن علقمة قال قال عبد اللہ ابن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول اللہ فصلّی فلم یرفع یدیہ إلا في أول مرة“ (۱/۵۹) رجالہ رجال مسلم، شرح معانی الآثار میں ہے: ”عن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ کان یرفع یدیہ في أول تکبیرة ثم لا یعود، وإسنادہ قوي“ ابن عباس کی حدیث ہے: ”لا ترفع الأیدي إلا في سبع مواطن حین یفتتح الصلاة وحین یدخل المسجد الحرام فینظر إلی البیت وحین یقوم علی الصفا وحین یقوم علی المروة وحین یقف مع الناس عشیة عرفة وبجمع والمقامین حین یرمي الجمرة“، معجم طبراني کبیر رقم الحدیث (۱۹۰۴) خبر رفع الیدین للإمام البخاری: ۱۴۳․ ان تمام احادیث کی وجہ سے رفع یدین کی روایات مرجوح ہیں، بلکہ بعض لحاظ سے منسوخ ہیں، لہٰذا ترک رفع والی روایات پر عمل پیرا ہونا راجح ہے، غیرمقلدین کا ترک رفع پر عمل کرنے والے کو اس سے ہٹانا درست نہیں، بلکہ مذموم ہے، رہی یہ بات کہ احادیث رفع یدین چار سو صحابہٴ کرام سے مروی ہے، یہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے، چنانچہ صاحب نیل الفرقدین لکھتے ہیں: ”وما قالہ الفیروز آبادی في سفر السعادة: قد صح في ہذا الباب أربع مائة خبر وأثر إھ فباطل لا أصل لہ“․
نماز میں قیام کی حالت میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا صحیح اور صریح حدیث سے ثابت ہے مصنف ابن ابی شیبہ مطبوعہ کراچی ۱/۱۳۹ پر ہے (حدثنا وکیع عن موسی بن عمیر عن علقمة بن وائل بن حجر عن أبیہ قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاة تحت السرة قال الحافظ قاسم بن قطلوبغا في تخریج أحادیث الاختیار شرح المختار: إن هذا السند جید، وقال الشیخ أبو الطیب ابن عبد القادر السندي فهذا حدیث صحیح قوي سندا ومتنا تقدم بہ الحجة وقال المحقق عابد السندي في طوالع الانوار: رجالہ ثقات، وقال العلامة ظفر أحمد التھانوی في إعلاء السنن۱/۱۷۱/: قلت ورجالہ رجال مسلم إلا موسی بن عمیر وهو ثقة من رجال النسائي) اور جن روایتوں میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کا تذکرہ ہے وہ محدثین اور فقہاء کے اصول کے مطابق ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی روایات کے مقابلہ میں مرجوح ہیں. نیز اس طرح کے مسائل پر ائمہ مجتہدین کے دور سے اب تک بہت بحثیں ہوچکی ہیں اور ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اس لیے غیر مقلدین یا ان سے متاثر لوگوں کی باتوں سے شکوک وشبہات میں نہیں پڑنا چاہئے۔
نماز میں قیام کی حالت میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا صحیح اور صریح حدیث سے ثابت ہے مصنف ابن ابی شیبہ مطبوعہ کراچی ۱/۱۳۹ پر ہے (حدثنا وکیع عن موسی بن عمیر عن علقمة بن وائل بن حجر عن أبیہ قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاة تحت السرة قال الحافظ قاسم بن قطلوبغا في تخریج أحادیث الاختیار شرح المختار: إن هذا السند جید، وقال الشیخ أبو الطیب ابن عبد القادر السندي فهذا حدیث صحیح قوي سندا ومتنا تقدم بہ الحجة وقال المحقق عابد السندي في طوالع الانوار: رجالہ ثقات، وقال العلامة ظفر أحمد التھانوی في إعلاء السنن۱/۱۷۱/: قلت ورجالہ رجال مسلم إلا موسی بن عمیر وهو ثقة من رجال النسائي) اور جن روایتوں میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کا تذکرہ ہے وہ محدثین اور فقہاء کے اصول کے مطابق ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی روایات کے مقابلہ میں مرجوح ہیں. نیز اس طرح کے مسائل پر ائمہ مجتہدین کے دور سے اب تک بہت بحثیں ہوچکی ہیں اور ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اس لیے غیر مقلدین یا ان سے متاثر لوگوں کی باتوں سے شکوک وشبہات میں نہیں پڑنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment