Thursday, 20 October 2016

تبلیغ والے مسافر ہونے کی وجہ سے جماعت ثانیہ کراسکتے ہیں

"1-تبلیغ والے مسافر ہونے کی وجہ سے جماعت ثانیہ کراسکتے ہیں؟
2-مقامی نمازاگر کھڑی ہو اس میں شرکت اسوجه سےنه کرے کہ تکبیراولی نہیں ملی صرف تکبیر اولی کے حصول کے لئے الگ جماعت کراسکتے ہیں؟"




مسجد م دوسری جماعت کرنے کاکیاحکم ہے ...؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجــواب حامـداومصلیا
تکرار جماعت کی صورتیں مختلف ہیں اور ان کا حکم بھی مختلف ہے، لہٰذا ہر صورت  کا حکم الگ الگ بیان کیا جاتا ہے:

(۱)مسجدِ طریق ہو، یعنی اس کے نمازی معیّن نہ ہوں۔

(۲) اس مسجد میں امام اور مؤذن معیّن نہ ہوں۔

(۳) مسجدِ محلہ میں غیر اہلِ محلہ نے جماعت کی ہو۔

(۴) مسجد محلہ میں اہلِ محلہ نے بلا اعلان اذان یا بلااذان جماعت کی ہو۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ان چاروں صورتوں میں تکرار جماعت (اگرچہ تکرار اذان واقامت کے ساتھ ہو) بالاجماع جائز بلکہ افضل ہے۔

(۵)مسجدِ محلہ میں اہلِ محلہ نے اعلانِ اذان سے جماعت کی ہو اور تکرارِ جماعت بھی اذان سے ہو۔

(۶) صورتِ مذکورہ میں تکرارِ جماعت بلا اذان ہو اور جماعت ہیئتِ اولیٰ پر ہی ہو، یعنی عدول عن المحراب نہ کیا گیا ہو۔

ان دونوں صورتوں میں بالاتفاق مکروہِ تحریمی ہے۔

(۷)مذکورہ صورت میں جماعت ثانیہ ہیئتِ اولیٰ پر نہ ہو، یعنی عدول عن المحراب کیا گیا ہو، امام وسطِ مسجد میں محراب یا محراب کے محاذات میں نہ کھڑا ہوا ہو، اس حالت میں کراہت شیخین میں مختلف فیہا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ

(احسن الفتاویٰ:۳/۳۲۲، زکریا بکڈپو، دیوبند)
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
انقلابِ زمانہ:۔

شریعت کا حکم یہ ہے کہ مساجد میں جماعت قائم کی جائے، بدونِ عذر غیر مسجد میں جماعت کرنا بالخصوص اس کی عادت بنالینا مکروہ اور بدعت ہے، خیر القرون میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، چلنے سے عاجز مریض کے علاوہ صرف ایسے لوگ مسجد کی جماعت سے پیچھے رہتے تھے جن کا نفاق معروف و مشہور ہوتا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
البتہ کسی عذر سے مسجد کی جماعت فوت ہوجائے تو گھر میں جماعت کی جائے، جیسا کہ احادیث اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے تعامل سے ثابت ہوا۔

مگر انقلابِ زمانہ دیکھئے کہ بدونِ عذر گھروں پر جماعت کا عام دستور ہورہا ہے، علماء، صلحاء، مقتداء و مرجعِ عوام و خواص بھی اس بدعت میں مبتلا ہیں، جن کا عمل دوسروں کے لئے بھی مشعلِ راہ ہے اور دوسری جانب مساجد میں جماعتِ ثانیہ کا عام رواج ہوگیا ہے، جس میں مندرجۂ ذیل قبائح ہیں:

(۱)حضور اکرم ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریق سے مخالفت۔

(۲)جماعت کی تقلیل و تہاون۔

(۳)جماعتِ اصلیہ کے ساتھ شرکت میں تکاسل اور اس کی عادت پڑجانے کا سبب۔

(۴)جماعت سے تخلف کے گناہ کا اظہار۔

(۵)افتراق کی صورت اور اس کا سبب۔

غرضیکہ دورِ بدعت کی ستم ظریفی ہے کہ حکم شرع کے بالکل بر عکس مسجد کی جماعت گھر وں میں ہونے لگی اور گھروں کی جماعت مسجد میں۔

اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اتباعِ سنت و اجتنابِ بدعات کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(احسن الفتاویٰ:۳/۳۲۷، زکریا بکڈپو، دیوبند۔فتاویٰ محمودیہ:۶/۴۳۳،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ رحیمیہ:۶/۱۳۴ ، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔ آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۲۲۵، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ کتاب الفتاویٰ:۲/۲۷۵،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
واللہ تعالی اعلم بالصواب

No comments:

Post a Comment