ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ؟
جواب #166
بسم الله الرحمن الرحيم
عہد نبوی میں عرب متکبرین کا یہ فیشن تھا کہ کپڑوں کے استعمال میں بہت اسراف سے کام لیتے تھے اور اس کو بڑائی کی نشانی سمجھتے تھے، ”ازار“ یعنی تہبند اس طرح باندھتے تھے کہ چلنے میں نیچے کا کنارہ زمین پر گھسٹتا تھا، اسی طرح قمیص اور عمامہ اور دوسرے کپڑوں میں بھی اسی قسم کے اسراف کے ذریعہ اپنی بڑائی اور چودھراہٹ کی نمائش کرتے، گویا اپنے دل کے استکبار اور احساس بالاتری کے اظہار اور تفاخر کا یہ ایک ذریعہ تھا، اور اس وجہ سے متکبرین کا یہ خاص فیشن بن گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت ممانعت فرمائی اور نہایت سنگین وعیدیں اس کے بارے میں سنائیں:
عن ابن عمرَ، أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: مَنْ جرَّ ثوبَہ خُیَلَاءَ لَمْ ینظُرِ اللّٰہُ إلیہِ یومَ القیامةِ․
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنا کپڑا کبر وغروراو رفخر کے طورپر (زمین پر) گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طر ف نظرِ کرم نہ فرمائے گا۔(بخاری، کتاب المناقب، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم:لوکنت متخذا خلیلا․․․․حدیث نمبر: ۳۶۶۵)
عَنْ أبي سَعِیْدِن الْخُدْرِيِّ قَالَ: سمعتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یقولُ: ازارةُ المُوٴْمِنِ الٰی أنْصَافِ سَاقَیْہِ، لاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ فِیْمَا بَیْنَہ وَبَیْنَ الْکَعْبَیْنِ، وَمَا أسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ فَفِي النَّارِ، قَالَ ذٰلِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ وَلاَ یَنْظُرُ اللّٰہُ یومَ القیامةِ الیٰ مَنْ جَرِّ ازارَہ بَطَرًا (ابوداوٴد، اللباس، باب فی قدر الموضع من الازار، حدیث نمبر: ۴۰۹۵)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے کہ مومن بندے کے لیے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ(یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں ہے، (یعنی جائز ہے)اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے(یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے)(راوی کہتے ہیں) کہ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی(اس کے بعد فرمایا) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا، جو ازراہِ فخروتکبر اپنی ازار گھسیٹ کے چلے گا۔
تشریح:ان حدیثوں میں فخر اور غرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو یہ سخت وعید سنائی گئی ہے کہ وہ قیامت کے اس دن میں جب کہ ہر بندہ اپنے ربِ کریم کی نگاہِ رحم وکرم کا سخت محتاج ہوگا، وہ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے، اللہ تعالیٰ اس دن ان کو بالکل ہی نظر انداز کردے گا، ان کی طرف نظرکرم بھی نہ فرمائے گا، ہائے ایسے لوگوں کی محرومی و بدبختی! اللہم احفظنا !
حضرت ابو سعید خدری کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لیے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہبند اور اسی طرح پاجامہ نصف پنڈلی تک ہو اور ٹخنوں کے اوپر تک ہو،تو یہ بھی جائز ہے؛ لیکن اس سے نیچے جائز نہیں؛ بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے۔
عہد نبوی میں عرب متکبرین کا یہ فیشن تھا کہ کپڑوں کے استعمال میں بہت اسراف سے کام لیتے تھے اور اس کو بڑائی کی نشانی سمجھتے تھے، ”ازار“ یعنی تہبند اس طرح باندھتے تھے کہ چلنے میں نیچے کا کنارہ زمین پر گھسٹتا تھا، اسی طرح قمیص اور عمامہ اور دوسرے کپڑوں میں بھی اسی قسم کے اسراف کے ذریعہ اپنی بڑائی اور چودھراہٹ کی نمائش کرتے، گویا اپنے دل کے استکبار اور احساس بالاتری کے اظہار اور تفاخر کا یہ ایک ذریعہ تھا، اور اس وجہ سے متکبرین کا یہ خاص فیشن بن گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت ممانعت فرمائی اور نہایت سنگین وعیدیں اس کے بارے میں سنائیں:
عن ابن عمرَ، أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: مَنْ جرَّ ثوبَہ خُیَلَاءَ لَمْ ینظُرِ اللّٰہُ إلیہِ یومَ القیامةِ․
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنا کپڑا کبر وغروراو رفخر کے طورپر (زمین پر) گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طر ف نظرِ کرم نہ فرمائے گا۔(بخاری، کتاب المناقب، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم:لوکنت متخذا خلیلا․․․․حدیث نمبر: ۳۶۶۵)
عَنْ أبي سَعِیْدِن الْخُدْرِيِّ قَالَ: سمعتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یقولُ: ازارةُ المُوٴْمِنِ الٰی أنْصَافِ سَاقَیْہِ، لاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ فِیْمَا بَیْنَہ وَبَیْنَ الْکَعْبَیْنِ، وَمَا أسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ فَفِي النَّارِ، قَالَ ذٰلِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ وَلاَ یَنْظُرُ اللّٰہُ یومَ القیامةِ الیٰ مَنْ جَرِّ ازارَہ بَطَرًا (ابوداوٴد، اللباس، باب فی قدر الموضع من الازار، حدیث نمبر: ۴۰۹۵)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے کہ مومن بندے کے لیے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ(یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں ہے، (یعنی جائز ہے)اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے(یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے)(راوی کہتے ہیں) کہ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی(اس کے بعد فرمایا) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا، جو ازراہِ فخروتکبر اپنی ازار گھسیٹ کے چلے گا۔
تشریح:ان حدیثوں میں فخر اور غرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو یہ سخت وعید سنائی گئی ہے کہ وہ قیامت کے اس دن میں جب کہ ہر بندہ اپنے ربِ کریم کی نگاہِ رحم وکرم کا سخت محتاج ہوگا، وہ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے، اللہ تعالیٰ اس دن ان کو بالکل ہی نظر انداز کردے گا، ان کی طرف نظرکرم بھی نہ فرمائے گا، ہائے ایسے لوگوں کی محرومی و بدبختی! اللہم احفظنا !
حضرت ابو سعید خدری کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لیے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہبند اور اسی طرح پاجامہ نصف پنڈلی تک ہو اور ٹخنوں کے اوپر تک ہو،تو یہ بھی جائز ہے؛ لیکن اس سے نیچے جائز نہیں؛ بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے۔
No comments:
Post a Comment