Tuesday, 4 April 2017

بنک سود کا مصرف کیا ہے؟

بنک سود کا مصرف کیا ہے؟

جواب #230
بسم الله الرحمن الرحيم
بینک سے ملنے والا سود قطعی حرام ہے اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں..
ایسے حرام مال کا اولاً حکم یہ ہے کہ اصل مالک کو لوٹا دیا جائے اور اصل مالک تک نہ پہنچایا جا سکے تو اس کے لئے فقراء میں بلا نیت ثواب صدقہ کر دیا جائے تاکہ اس کا ثواب اصل مالک تک پہنچ جائے…
وفی الشامیہ: ویردونہا علی اربابھا ان عرفوا والا تصدقونھا لان سبیل الکسب الخبیث التصدق اذا تعذر الرد علی صاحبہ
(شامی 6/385 از فتاوی بنوریہ)
کیا سودی رقم رفاہی کاموں میں صرف کی جا سکتی ہے یا نہیں اس میں اکابرین کا اختلاف ہے.
بعض حضرات سود کی رقم کو صرف غرباء ومساکین پر بلا نیت ثواب صدقہ کرنے کے قائل ہیں (اصل مالک تک پہنچانا دشوار ہونے کی صورت میں)
جب کہ بعض حضرات (نیز فقہی سمینار منعقدہ بہ دہلی سن 1410 کے مطابق) اس رقم کو صدقات واجبہ کے علاوہ رفاہ عام کے کاموں پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے
(از نئے مسائل اور علماء کے فیصلے 129)
بندہ قول اول کا قائل ہے
کیا سود کی رقم حکومت کے عائد کردہ ٹیکسوں میں دینے کی گنجائش ہے یا نہیں؟
اس کے متعلق عرض ہے کہ ایسا ٹیکس جس سے ہمیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے جیسے ہاؤس ٹیکس, واٹر ٹیکس,سیور ٹیکس اس میں سود کی رقم دینا جائز نہیں.
یہ ایسے ٹیکس ہیں جن کے بدلے کوئی ذاتی منفعت یا معاوضہ حاصل ہوتا ہے
لہذا اس میں سود کی رقم دینا جائز نہ ہوگا…
اور ایسا ٹیکس جس میں ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا یعنی وہ محض ظلم کے طور پر لگایا گیا ہو جیسے انکم ٹیکس,سیل ٹیکس ویٹ ٹیکس,کسٹم ڈیوٹی ٹیکس وغیرہ تو اس میں سود کی رقم دے سکتے ہیں
یہ ایسے ٹیکس ہیں جن کے بدلے کوئی ذاتی منفعت یا معاوضہ حاصل نہیں ہوتا لہذا ان ٹیکسوں میں ادا کر دینا حکومت کو ہی واپس کر دینا ہوا کیونکہ بینک حکومت کے ہی ملک ہوتے ہیں
ہاں اگر کوئی بینک حکومت کی ملکیت نہیں ہے تو بینک سے ملنے والا سود مذکورہ ٹیکسوں میں نہیں ادا کیا جا سکتا.
.(فتاوی دارالعلوم آن لائن, چند اہم عصری مسائل 327)
رہا مسئلہ سود کی رقم سود میں دینا درست نہیں جبکہ بینک الگ الگ ہو.
اگر ایک ہی ہو تو گنجائش ہے…
(ماخوذ از فتاوی عثمانی 3/280)
فقط وللہ تعالی اعلم
سود کی رقم کا مصرف کیا ہے؟؟
★ قانونا یا ضرورتا بینک میں جمع شدہ رقم پر حاصل ہونے والے سود کا مصرف یہ ہے کہ اسکو اصل مالک یا اصل مالک کے وارثین کو لوٹا دیا جائے لیکن اگر اصل مالک معلوم نہ ہو یا اس تک پہنچ ممکن نہ ہو تو فقراء کو بغیر ثواب کی نیت کے اور سود کی صراحت کیے بغیر صدقہ کرنا واجب ہے، اس کو کسی بھی طرح اپنے استعمال میں لانا یا اس طرں صدقہ یا خرچ کرنا کہ اس سے خود کو فائدہ پہنچتا ہو ناجائز ہے ،لہذا اپنے عزیز و اقارب کے بجائے کسی اجنبی کو، جو غریب ہو، بغیر نیتِ صدقہ کے دینا بہتر ہے، اور رفاہی کاموں میں سود کا مال دینا بھی گویا ایسی جگہ خرچ کرنا ہے کہ وہ اس سے منتفع ہوسکتا ہے مثلا اس نے مہمان خانہ بنوالیا یا شوچالیے بنوایا یا سڑک بنوائی اور بہت ممکن ہے وہ اسی سڑک پر چل کر مہمان خانے کی ہوا کھاکر اسی شوچالیے میں ہگے، نیز حدیث شریف میں ہے؛ ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال لیاتینی علی الناس زمان لایبقی احد الا اکل الربا فان لم یاکلہ اصابہ من بخارہ
(ابوداؤد شریف)
نیز فقہاء نے لکھا ہے کہ جس فقیر کو معلوم ہوکہ یہ مجھے حرام مال دے رہا ہے اس کے لیے لینا جائز نہیں لہذا سڑک بنا کر اس پر چلنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے،
البتہ بعض علماء نے سودیا حرام مال کا مصرف جب کہ رد الی مالک متعذر ہو کو لقطے کے مصرف کو سود کا مصرف قرار دیا ہے اور بعض نے تخلص منھا مصرف بتلایا ہے لہذا ان حضرات کے یہاں فقیر، مساکین اور مصلح عامہ یعنی رفاہی کاموں میں اس مال کو خرچ کیا جاسکتا ہے اور بغیر کسی فرق کے اپنے قریبی فقیر رشتے داروں کو بھی دےسکتا ہے ـ
قول اول ہی کے قائل صاحب فتاوی محمودیہ ہیں ( ۳/۶۲،۶۳)آپ مدظلہ نے واجب التملیک کی صراحت کی ہے،اور دیوبند کے ارباب دار الافتاء کابھی ملاحظہ ہو
سود کی رقم حاصل کرنے کے لیے بینک میں روپیہ جمع کرنا شرعاً جائز نہیں، البتہ اگر جمع کردیا ہے تو اس پر ملنے والی سود کی رقم کو بینک میں نہ چھوڑیں بلکہ اس کو نکال کر غرباء ومساکین پر بلانیت ثواب صدقہ کردیں، اور یہ صدقہ کرنا واجب وضروری ہے، اس رقم کو مدرسہ میں یا بہن کی شادی میں یا رفاہی کاموں میں یا اپنے استعمال میں صرف کرنا جائز نہیں: لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق (شامي)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
★کیا سود کی رقم انکم ٹیکس ودیگر گورمنٹ کے ٹیکس میں دے سکتے ہیں؟؟
★ایسا ٹیکس جس سے ہمیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے، اس میں سود کی رقم دینا جائز نہیں۔ اور ایسا ٹیکس جس میں ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، یعنی محض ظلم کے طور پر لگایا گیا ہو تو اس میں سود کی رقم دے سکتے ہیں۔ مگر شرعاً یہ ہے کہ آپ کی دی ہوئی رقم حکومت کے خزانہ میں پہنچ جائے، یعنی آپ کو باقاعدہ سرکاری طور پر رسید مل جائے۔ اگر حکومت کے افسران نے آپ کی دی ہوئی رقم اپنی جیب میں رکھ لی تو پھر سود کی رقم کا دینا رشوت میں جائز نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
ہندوستانی حکومت جبرا انکم ٹیکس جو وصول کرتی ہے وہ غیر منصفانہ اور باواجبی ہے اس بنا پر اس میں سود کی وہ رقم دینے کی گنجائش ہے جو حکومتی بینک ہی سے وصول کی گئی ہو پرائویٹ بینک سے وصول کی ہوئی سودی رقم نہیں دی جاسکتی نیز ان ٹیکسوں میں سود کی رقم دینا جائز نہیں جو منصفانہ ہو اور واجبی ہو اور اس کا نفع خود انسان کی ذات کو پہنچتا ہے مثلا پانی، روشنی اور مکان کا ٹیکس ــــــــ
★ایک بینک سے ملا ہوا سود
دوسری بینک کے لاگو شدہ سود میں دے سکتے ہیں؟؟؟
★ دوسری بینک سے جو سود لاگو اس وقت ہوگا جب اس سے سودی معاملہ کیا جائے اور سودی معاملہ کرنا سخت حرام ہے لیکن اگر غلطی سے یا غفلت سے یا سخت مجبوری میں سود لاگو ہوگیا تو اس سود کی ادائیگی دوسرے سودی رقم سے کرنا جائز نہیں، کتاب الفتاوی میں ہے؛گویا یہ سود سے استفادہ کرنا (۵/۳۰۹)
امداد الفتاوی (۳/۱۳۷) میں بھی یہ مسئلہ مذکور ہے جو مجھ کو مکمل سمجھ میں نہیں آیا ــ 

No comments:

Post a Comment