Wednesday, 12 April 2017

زینب سے اس کے بھائیوں نے کہا کہ قسم ہے تمہارے باپ کی تم فلاں سے بات نہیں کرو

"كیا فرما تے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں۔۔
زینب سے اس کے بھائیوں نے کہا کہ قسم ہے تمہارے باپ کی تم فلاں سے بات نہیں کرو گی۔پھر زینب نے وقت مقررہ سےپہلے  بات کرلی تو کیا قسم واقع ہوجائے گی اور زینب حانث ہو جائے گی۔۔اور اگر حانث ہوگئی تو شرعی اعتبار سے کیا کرنا ہوگا؟؟؟"

جواب #236
بسم الله الرحمن الرحيم
اس سے قسم نہیں ہوگی،
اور اللہ کے علاوہ کی قسم کھانا حرام ہے

Monday, 10 April 2017

اسلام میں شادی پر دولہا کو دینا اور لینا کیسا ہے

اسلام میں شادی پر دولہا کو دینا اور لینا کیسا ہے تفصیل سے بتائیں حدیث سے دلیل کے ساتھ بتا دیں اور یہ کیا ہے اور کو اور کب سے دی جاتی ہے سلامی کا رواج کس کا تھا مسلمانو میں کیسے آیا پلز تفصیل سے بتا دیں

جواب #235
بسم الله الرحمن الرحيم
دولہا کو تحفہ وغیرہ دینا یہ مسنون طریقہ ہے، جب آپﷺ نے حضرت زینب سے نکاح کیا تو حضرت ام سلیم نے حضرت انس کو ہدیہ دے کر بھیجاتھا، لہٰذا مذکورہ صورت میں شادی کے موقع پر دولہا کو رقم یا ہدیہ وغیرہ دینا یہ بدعت نہیں بلکہ مسنون ہے ،البتہ اس معاملے میں حد سے تجاوز کرنا اور اسے لازم سمجھ کر لینا دینا اور نہ دینے والے پر طعن و تشنیع یا برے جذبات دل میں لانا ان امور سے اجتناب کرنا چاہیئے،اور اگر ایسے عوامل کے پیشِ نظر ہدایا کا لین دین ہو رہا ہو تو اسے ترک کر دینا چاہیئے۔
لما فی البخاری (۷۷۵/۲): باب الھدیۃ للعروس: وقال إبراهيم: عن أبي عثمان واسمه الجعد، عن أنس بن مالك ؓ قال: مر بنا في مسجد بني رفاعة، فسمعته يقول: كان النبي ﷺ إذا مر بجنبات أم سليم دخل عليها فسلم عليها، ثم قال: كان النبي ﷺ عروسا بزينب، فقالت لي أم سليم: لو أهدينا لرسول الله ﷺ هدية، فقلت لها: افعلي، فعمدت الى تمر وسمن وأقط، فاتخذت حيسة في برمة، فأرسلت بها معي إليه، فانطلقت بها إليه، فقال لي:ضعها ، ثم أمرني فقال:ادع لي رجالا - سماهم - وادع لي من لقيت قال: ففعلت الذي أمرني، فرجعت فإذا البيت غاص بأهله، فرأيت النبي ﷺ وضع يديه على تلك الحيسة وتكلم بها ما شاء الله، ثم جعل يدعو عشرة عشرة يأكلون منه۔الخ۔
و فی الترمذی (۳۴/۲):عن أبى هريرة ؓ عن النبى -صلى الله عليه وسلم- قال: تهادوا فإن الهدية تذهب وحر الصدر ولا تحقرن جارة لجارتها ولو شق فرسن شاة۔
وفی عمدۃ القاری (۱۵۱/۲۰): وفيه فوائد الأولى كونه أصلا في هدية العروس وكان الإهداء قديما فأقرها الإسلام 

عطر میں آرکوہل ملا کر جو سپرے بنایا جاتا ہے

السلام علیکم   جناب مفتی صاحب عطر میں آرکوہل ملا کر جو سپرے بنایا جاتا ہے اس آرکوہل کے بارے میں آپکی کیا رائ ہے کیا ہر قسم کا آرکوہل حرام ہے

جواب #234
بسم الله الرحمن الرحيم
دواؤں اور پر فیوم میں عموماً جو الکحل استعمال ہوتا ہے وہ کھجور یا انگور کا نہیں ہوتا؛ بلکہ دیگر چیزوں کا بنا ہوا ہوتا ہے، اور بہت معمولی درجہ میں ہوتا ہے، جس سے نشہ وغیرہ نہیں آتا ہے؛ لہٰذا ضرورت کے وقت اُس کے استعمال کی گنجائش ہے، اُس کے کپڑے پر لگنے سے ناپاکی کا حکم بھی نہیں دیا جائے گا۔ (احسن الفتاویٰ ۸؍۴۸۸)
وأما ماہو حلال عند عامۃ العلماء فہو الطلاء، وہو المثلث ونبیذ التمر والزبیب، فہو حلال شربہ ما دون السکر لاستمراء الطعام والتداوي وللتقویٰ علی طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ لا للتلہي، والمسکر منہ حرام، وہو القدر الذي یسکر وہو قول العامۃ۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الأشربۃ / الباب الأول ۵؍۴۱۲) فقط واللہ تعالیٰ اعلم 

Tuesday, 4 April 2017

Agar kisi ka peshaab nikal gaya jissey uska jism aur kapdey napaak ho

"ASSALAAMU ALAIKUM.

Agar kisi ka peshaab nikal gaya jissey uska jism aur kapdey napaak ho gay, magar jab uska jism aur kapdey dhoop se sookh gaya ho to kya tab Paak maaney jaengey?"

جواب #233
بسم الله الرحمن الرحيم
نہیں۔

اس کو پانی سے دھونا ضروری ہوگا۔ 

reshwat pr barti hony se sari tankhawin jaiz hi?

mujah dor me agr koi nokri karna chata hi to khety hin bai itny rope do pr agr koi pese de kr nokri kary to sari tankhwain jaiz hi


reshwat pr barti hony se sari tankhawin jaiz hi

reshwat se mulazmat melne pr tankhwain jaiz hi

جواب #232
بسم الله الرحمن الرحيم
رشوت دے کر نوکری حاصل کرنا ناجائز ہے لیکن اگر کوئی کرلے اور وہ اس نوکری کا اہل ہے او رڈیوٹی پوری طرح انجام دیتا ہے تو اس ملازمت سے حاصل کمائی پر حرام ہونے کا حکم نہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند 

Facebook ka estimaal haraam ya halaal hay?

"ASSALAAMU ALAIKUM.
Facebook ka estimaal haraam ya halaal hay?
Kyuki ismey na mahram bhi hotey hyen aur dar rahta hay fitney me mulawwis honey ka."

جواب #231
بسم الله الرحمن الرحيم
’’واٹس اَپ‘‘ اور ’’ فیس بک‘‘ وغیرہ چیزیں در اَصل ایک دوسرے تک معلومات منتقل کرنے کے لئے اِیجاد کی گئی ہیں، چناںچہ ان کے ذریعہ سے منٹوں سکنڈوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اطلاعات بھیجی جاسکتی ہیں۔ اَب اُن کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر جائز معلومات اور مباح مقاصد کے لئے اُن کا استعمال کیا جارہا ہے، تو شرعاً اِس میں حرج نہیں، اور اگر ناجائز باتوں اور فحش تصاویر وغیرہ کے لئے اُن کو استعمال میں لایا جارہا ہے، تو اُن کے استعمال کی قطعاً اِجازت نہ ہوگی۔
الأمور بمقاصدہا۔ (الأشباہ والنظائر ۹۹) فقط واللہ تعالیٰ اعلم 

بنک سود کا مصرف کیا ہے؟

بنک سود کا مصرف کیا ہے؟

جواب #230
بسم الله الرحمن الرحيم
بینک سے ملنے والا سود قطعی حرام ہے اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں..
ایسے حرام مال کا اولاً حکم یہ ہے کہ اصل مالک کو لوٹا دیا جائے اور اصل مالک تک نہ پہنچایا جا سکے تو اس کے لئے فقراء میں بلا نیت ثواب صدقہ کر دیا جائے تاکہ اس کا ثواب اصل مالک تک پہنچ جائے…
وفی الشامیہ: ویردونہا علی اربابھا ان عرفوا والا تصدقونھا لان سبیل الکسب الخبیث التصدق اذا تعذر الرد علی صاحبہ
(شامی 6/385 از فتاوی بنوریہ)
کیا سودی رقم رفاہی کاموں میں صرف کی جا سکتی ہے یا نہیں اس میں اکابرین کا اختلاف ہے.
بعض حضرات سود کی رقم کو صرف غرباء ومساکین پر بلا نیت ثواب صدقہ کرنے کے قائل ہیں (اصل مالک تک پہنچانا دشوار ہونے کی صورت میں)
جب کہ بعض حضرات (نیز فقہی سمینار منعقدہ بہ دہلی سن 1410 کے مطابق) اس رقم کو صدقات واجبہ کے علاوہ رفاہ عام کے کاموں پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے
(از نئے مسائل اور علماء کے فیصلے 129)
بندہ قول اول کا قائل ہے
کیا سود کی رقم حکومت کے عائد کردہ ٹیکسوں میں دینے کی گنجائش ہے یا نہیں؟
اس کے متعلق عرض ہے کہ ایسا ٹیکس جس سے ہمیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے جیسے ہاؤس ٹیکس, واٹر ٹیکس,سیور ٹیکس اس میں سود کی رقم دینا جائز نہیں.
یہ ایسے ٹیکس ہیں جن کے بدلے کوئی ذاتی منفعت یا معاوضہ حاصل ہوتا ہے
لہذا اس میں سود کی رقم دینا جائز نہ ہوگا…
اور ایسا ٹیکس جس میں ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا یعنی وہ محض ظلم کے طور پر لگایا گیا ہو جیسے انکم ٹیکس,سیل ٹیکس ویٹ ٹیکس,کسٹم ڈیوٹی ٹیکس وغیرہ تو اس میں سود کی رقم دے سکتے ہیں
یہ ایسے ٹیکس ہیں جن کے بدلے کوئی ذاتی منفعت یا معاوضہ حاصل نہیں ہوتا لہذا ان ٹیکسوں میں ادا کر دینا حکومت کو ہی واپس کر دینا ہوا کیونکہ بینک حکومت کے ہی ملک ہوتے ہیں
ہاں اگر کوئی بینک حکومت کی ملکیت نہیں ہے تو بینک سے ملنے والا سود مذکورہ ٹیکسوں میں نہیں ادا کیا جا سکتا.
.(فتاوی دارالعلوم آن لائن, چند اہم عصری مسائل 327)
رہا مسئلہ سود کی رقم سود میں دینا درست نہیں جبکہ بینک الگ الگ ہو.
اگر ایک ہی ہو تو گنجائش ہے…
(ماخوذ از فتاوی عثمانی 3/280)
فقط وللہ تعالی اعلم
سود کی رقم کا مصرف کیا ہے؟؟
★ قانونا یا ضرورتا بینک میں جمع شدہ رقم پر حاصل ہونے والے سود کا مصرف یہ ہے کہ اسکو اصل مالک یا اصل مالک کے وارثین کو لوٹا دیا جائے لیکن اگر اصل مالک معلوم نہ ہو یا اس تک پہنچ ممکن نہ ہو تو فقراء کو بغیر ثواب کی نیت کے اور سود کی صراحت کیے بغیر صدقہ کرنا واجب ہے، اس کو کسی بھی طرح اپنے استعمال میں لانا یا اس طرں صدقہ یا خرچ کرنا کہ اس سے خود کو فائدہ پہنچتا ہو ناجائز ہے ،لہذا اپنے عزیز و اقارب کے بجائے کسی اجنبی کو، جو غریب ہو، بغیر نیتِ صدقہ کے دینا بہتر ہے، اور رفاہی کاموں میں سود کا مال دینا بھی گویا ایسی جگہ خرچ کرنا ہے کہ وہ اس سے منتفع ہوسکتا ہے مثلا اس نے مہمان خانہ بنوالیا یا شوچالیے بنوایا یا سڑک بنوائی اور بہت ممکن ہے وہ اسی سڑک پر چل کر مہمان خانے کی ہوا کھاکر اسی شوچالیے میں ہگے، نیز حدیث شریف میں ہے؛ ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال لیاتینی علی الناس زمان لایبقی احد الا اکل الربا فان لم یاکلہ اصابہ من بخارہ
(ابوداؤد شریف)
نیز فقہاء نے لکھا ہے کہ جس فقیر کو معلوم ہوکہ یہ مجھے حرام مال دے رہا ہے اس کے لیے لینا جائز نہیں لہذا سڑک بنا کر اس پر چلنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے،
البتہ بعض علماء نے سودیا حرام مال کا مصرف جب کہ رد الی مالک متعذر ہو کو لقطے کے مصرف کو سود کا مصرف قرار دیا ہے اور بعض نے تخلص منھا مصرف بتلایا ہے لہذا ان حضرات کے یہاں فقیر، مساکین اور مصلح عامہ یعنی رفاہی کاموں میں اس مال کو خرچ کیا جاسکتا ہے اور بغیر کسی فرق کے اپنے قریبی فقیر رشتے داروں کو بھی دےسکتا ہے ـ
قول اول ہی کے قائل صاحب فتاوی محمودیہ ہیں ( ۳/۶۲،۶۳)آپ مدظلہ نے واجب التملیک کی صراحت کی ہے،اور دیوبند کے ارباب دار الافتاء کابھی ملاحظہ ہو
سود کی رقم حاصل کرنے کے لیے بینک میں روپیہ جمع کرنا شرعاً جائز نہیں، البتہ اگر جمع کردیا ہے تو اس پر ملنے والی سود کی رقم کو بینک میں نہ چھوڑیں بلکہ اس کو نکال کر غرباء ومساکین پر بلانیت ثواب صدقہ کردیں، اور یہ صدقہ کرنا واجب وضروری ہے، اس رقم کو مدرسہ میں یا بہن کی شادی میں یا رفاہی کاموں میں یا اپنے استعمال میں صرف کرنا جائز نہیں: لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق (شامي)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
★کیا سود کی رقم انکم ٹیکس ودیگر گورمنٹ کے ٹیکس میں دے سکتے ہیں؟؟
★ایسا ٹیکس جس سے ہمیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے، اس میں سود کی رقم دینا جائز نہیں۔ اور ایسا ٹیکس جس میں ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، یعنی محض ظلم کے طور پر لگایا گیا ہو تو اس میں سود کی رقم دے سکتے ہیں۔ مگر شرعاً یہ ہے کہ آپ کی دی ہوئی رقم حکومت کے خزانہ میں پہنچ جائے، یعنی آپ کو باقاعدہ سرکاری طور پر رسید مل جائے۔ اگر حکومت کے افسران نے آپ کی دی ہوئی رقم اپنی جیب میں رکھ لی تو پھر سود کی رقم کا دینا رشوت میں جائز نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
ہندوستانی حکومت جبرا انکم ٹیکس جو وصول کرتی ہے وہ غیر منصفانہ اور باواجبی ہے اس بنا پر اس میں سود کی وہ رقم دینے کی گنجائش ہے جو حکومتی بینک ہی سے وصول کی گئی ہو پرائویٹ بینک سے وصول کی ہوئی سودی رقم نہیں دی جاسکتی نیز ان ٹیکسوں میں سود کی رقم دینا جائز نہیں جو منصفانہ ہو اور واجبی ہو اور اس کا نفع خود انسان کی ذات کو پہنچتا ہے مثلا پانی، روشنی اور مکان کا ٹیکس ــــــــ
★ایک بینک سے ملا ہوا سود
دوسری بینک کے لاگو شدہ سود میں دے سکتے ہیں؟؟؟
★ دوسری بینک سے جو سود لاگو اس وقت ہوگا جب اس سے سودی معاملہ کیا جائے اور سودی معاملہ کرنا سخت حرام ہے لیکن اگر غلطی سے یا غفلت سے یا سخت مجبوری میں سود لاگو ہوگیا تو اس سود کی ادائیگی دوسرے سودی رقم سے کرنا جائز نہیں، کتاب الفتاوی میں ہے؛گویا یہ سود سے استفادہ کرنا (۵/۳۰۹)
امداد الفتاوی (۳/۱۳۷) میں بھی یہ مسئلہ مذکور ہے جو مجھ کو مکمل سمجھ میں نہیں آیا ــ 

مسئلہ امامت نابالغ لڑکے کی

"السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نابالغ لڑکے کے پیچھے بالغ مرد فرض نماز پڑھ سکتا ہے
مثلاً  ہم مسجد میں داخل ہوئے اورنماز ہوچکی تھی اور مجھ سےکچھ پہلے چند نابالغ لڑکے جنکی عمریں 12سال کے آس پاس تهیں أن میں سے ایک نے امامت شروع کردی ایک رکعت ہوبهی چکی اور میں مسجد میں پہونچا تو کیا میں جماعت میں شامل ہوجاؤں؟
 یامیں اپنی نماز الگ پڑهوں
کیا میری نماز نابالغ کے پیچھے جائز ہوگی
نابالغ کی امامت بالغ کیلئے جائز اور ناجائز دونوں صورتوں کا مکمل اور مدلل جواب مرحمت فرمائیں
اگر نابالغ کی امامت بالغ کیلئے ناجائز ہے تو مکمل دلیل کے ساتھ وضاحت مطلوب ہے؟
السائل
حافظ خورشید احمد انصاری گورکھپوری
29/جمادی الثانی /1438 هجری"

جواب #229
بسم الله الرحمن الرحيم
نابالغ بچے کی امامت بڑوں کیلئے مطلقاًناجائزہے چاہے فرائض ہوں یانوافل بڑوں کی نمازادانہ ہوگی البتہ اگربچہ بچوں کی امامت کرناچاہے توکرسکتاہے۔
لمافی الشامیۃ(۵۵۰/۱):وشروط الامامۃ للرجال الاصحاء ستۃ اشیاء الاسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الاعذار…احترزبالرجال الاصحاء…عن الصبیان فلایشترط فی امامھم البلوغ۔

       


حنفیہ کے نزدیک فرض یا نفل کسی بھی نماز میں نابالغ کی امامت درست نہیں ہے، اس لئے کوئی بھی بالغ حنفی کسی بھی نابالغ امام کی اقتداء میں ہر گز نماز نہ پڑھے، اگر کسی مسجد میں نابالغ امام مقرر ہو تو اپنی نماز الگ پڑھ لے، اس کی اقتداء نہ کرے۔
عن عطاء بن رباح قال: لا یؤم الغلام الذي لم یحتلم۔ (مصنف عبد الرزاق ۲؍۳۹۸ رقم: ۳۸۴۵)
عن عطاء وعمر ابن عبد العزیز قالا: لا یؤم الغلام قبل أن یحتلم في الفریضۃ ولا غیرہا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۳؍۲۰۶ رقم: ۳۵۲۴)
ولا تجوز إمامۃ الصبي في صلاۃ الفرض۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۲۵۱ رقم: ۲۳۳۰، الفقہ علی المذاہب الأربعہ مکمل: ۲۳۰)
لایؤم الغلام الذي لا تجب علیہ الحدود۔ (بذل المجہود ۱؍۳۷۱)
لا یصح اقتداء رجل بامرأۃ وخنثی وصبي مطلقًا۔ (شامي ۲؍۳۲۱ زکریا)
فلا یصح اقتداء بالغ بصبي مطلقًا، سواء کان في فرض؛ لأن صلاۃ الصبي ولو نوی الفرض نفل أو في نفل؛ لأن نفلہ لا یلزمہ أي ونفل المقتدي لازم مضمون علیہ فیلزم بناء القوی علی الضعیف۔ (طحطاوي ۱۵۷، کبیري ۵۱۶، إمداد الفتاویٰ ۱؍۳۶۱)



امامت کے لیے امام کا بالغ ہونا ضروری ہے، نابالغ کی امامت درست نہیں، بلوغت کی مدت ۱۵/ برس ہے، بشرطیکہ اس سے پہلے لڑکے کو احتلام یا انزال نہ ہوتا ہو۔
۔
واللہ تعالیٰ اعلم